ہے حالِ بے چارگی مجھے نیند نہیں آتی
بے خواب آنکھیں کیوں نیند نہیں آتی
یہ گناہ بس میرا ہی تو نہیں تھا
اے زمانِ خزاں تو ان پر نہیں آتی
یہ کہہ کر وہ لا پَاسخ کر گیا مجھے
نیند نہیں آتی، ارے تو قیامت نہیں آتی
میں بھی پاگل برای صدمه زدن به خودتان
مگر تصور میں تیری تصویر نہیں آتی
بہت ہو چکا آماده باشید برای رسیدگی
یہ بند کمرے میں روشنی کیوں نہیں آتی
تیرا کھیل ہوا تمام شد اب مطمئن باشید
رو گے مثل من نفیس تجھے موت کیوں نہیں آتی