ہے خزاں زندگی بہار نہیں
زندگی میں کہیں قرار نہیں
کیسے کہہ دوں میں سوگوار نہیں
درد و غم کے سوا بھلا کیا ہے
زندگی آنسوؤں کا دریا ہے
زندگی سے ہمیں ملا کیا ہے ؟
ایک چبھتا ہوا سا نشتر ہے
زندگی خار دار بستر ہے
زندگی سے تو موت بہتر ہے
ہم نے مشکل سے یہ گزاری ہے
زندگی مفلسوں پہ بھاری ہے
بازی ہر ایک ہم نے ہاری ہے
اپنی منزل کے اک نشاں کے لیے
ہم بھٹکتے ہیں کارواں کے لیے
زندگی تو ہے امتحاں کے لیے
اب تو خود پہ بھی اعتبار نہیں
ہم کو قسمت پہ اختیار نہیں
سچ تو ہے موت ناگوار نہیں
ہے خزاں زندگی بہار نہیں