ہے دوسرا شخص سایہ ہی اپنا زندگی میں
نذرانے دئیے ہیں کیسے کیسے دوستی نے
نہ شکوہ بھی کر سکیں لوگوں کے ستموں کا
مار ڈالا ہے ہمیں تو ہماری زندگی نے
اپنے آنسوؤں کی بھی قیمت نہ مانگ سکیں
بربادیوں میں دھکیلا ہے بے بسی نے
مل بھی جائے تو ہزاروں غم دے جائے
رُلایا ہے قدم قدم پہ ہر خوشی نے