ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی
دو گام چلے پھر رک جائے
کبھی چلتے چلتے دوڑ پڑے
جب خوشی کی سیڑھی سامنے ہو
یہ آگے بڑھے اور سیڑھی چڑھے
کوئی غم کا سانپ اسے ڈس جائے
تو چار قدم نیچے آئے
کبھی اترتی اور کبھی چڑھتی سی
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی
کبھی یوں الجھن میں پھنستی ہے
نہ روشن ہو اک نقطہ بھی
بس ہر سو گھنا اندھیرا ہو
تب کوئی دیپ جلاتی ہے
دل میں امید جگاتی ہے
پھر آگے بڑھنے کی خواہش
ہمیں سو کے قریب لے آتی ہے
اب منزل اپنے سامنے ہے
پر موت بھی اپنا منہ کھولے
ہے ڈسنے کو تیار یہاں
معلوم نہیں کیا ہو گا کب
یہ کھیل اسی کے ہاتھ میں ہے
بازی گر ہے جو قسمت کا
وہی جانتا ہے کیا ہو گا اب
نہیں زندگی کسی کی مرضی کی
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی