ہے شاعری بھی ایک عذاب لکھنا بھی عذاب پڑھنا بھی عذاب
ہم جیسوں کے لئے ٹھیہرنا بھی عذاب چلنا بھی عذاب
جب مجھے معلوم ہے تیرا ہجر ہے جاودانی ہجر جاناں
اور اب لگتا ہے محبوب تیرا آنا بھی عذاب جانا بھی عذاب
نہ آگ سے بچنا ہے نہ راکھ کو سمیٹنا ہے جلنا ہے بس جلنا
امورِ عشق میں دراصل کہنا بھی عذاب سہنا بھی عذاب
میں مئے خوار ہوں یارو کیا تکتے ہو میری لباس پوشی کو
شراب ہی شراب چاہئیے اُترن بھی عذاب پِہنا بھی عذاب
صفِ یاراں سے ہی کسی دست دراز کے زد پے کھڑا ہوں میں
اب بچنا بھی عذاب تڑنا بھی عذاب لڑنا بھی عذاب