حکمتوں سے دور نادانی کے پاس
ہے علاج ِدل پریشانی کے پاس
ایک منظر میری آنکھوں کے قریب
ایک چہرہ میری بے دھیانی کے پاس
تیری خوشبو کھینچ کر لائی مجھے
بے خودی میں رات کی رانی کے پاس
کشتیاں ساری کناروں سے پرے
اور میں دریا کی طغیانی کے پاس
میں نے باہر جھانک کر دیکھا نہیں
تھے وہ منظر گھر کی ویرانی کے پاس
خشک آنکھیں بند کی اور سو گیا
آگ جلتی ہی رہی پانی کے پاس