کہاں پہ مدحت آقا کہاں گلام کی بات
یہ مشتِ خاک کہاں اور اس مقام کی بات
فرشتے پہلے ہی میرا طواف کرنے لگے
مری زبان پہ جو آئے سلام کی بات
نہ ننگ و نام عزیز اور نہ درہم و دینار
زبان پر ہے فقط ایک ان کے نام کی بات
یہ چاند آپ کے چہرے کا ایک عکس لطیف
یہ کہکشاں ہے کہ لکھی ہے اس خرام کی بات
جو قلب پاک رسالت مآب پر اترا
زمانے بھر میں ہے اب تک اسی پیام کی بات
یہ زندگی بھی تو اپنی ہے نعت کا صدقہ
ہو جیسے لحمہ موجودہ میں دوام کی بات
فضا ہے طیبہ کی دل کے افق پہ سو وشمہ
ہے میرے لب پہ فلسطین اور شام کی بات