یا رب کبھی مجھے بھی وہ منظر دیکھائی دے
ہر شخص مجھ کو مجھ سے بھی بہتر دیکھائی دے
میں تھک چکا ہوں جسم کے منظر کو دیکھ کر
اب مجھ کو میری روح کے اندر دیکھائی دے
اک عمر کٹ گئی مگر رستہ سفر میں ہے
کوئی تو مجھ کو میل کا پتھر دیکھائی دے
یا رب مجھے بھی یوں کبھی تُو معتبر تو کر
لوگوں کو میرے جسم پہ یہ سر دیکھائی دے
خوابوں کی سر زمین پہ مجنوں ہیں محوِ رقص
ہر شخص شہرِ قیس کا شاعر دیکھائی دے
میں اپنے ہی وجود کی دنیا میں قید ہوں
پھر کیا یہاں سے راستہ باہر دیکھائی دے
زندہ بھی دفن ہیں عقیلؔ دنیا میں کتنے لوگ
لازم نہیں ہے ہر کوئی مر کر دیکھائی دے