آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوزِ عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں*عذاب میں
مت کر نگاہِ خشم ، یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تُو مجھے تو شراب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبانِ بدمعاملہ یوم الحساب میں
جاکر درِ طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ اُن نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
(ق)
عش و خوشی ہے شیب میں ہو گر پہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عباب میں
دیں عمرِ حضر موسمِ پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہدِ شباب میں
(ق)
آنکلے تھے جو حضرتِ میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ اُن کے جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے رو کے یہ اس کے جواب میں
تُو جان ایک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک، جہانِ خراب میں