اس دیار جہاں میں جہاں رہتے ہیں
دل ہمارا اس میں تو نہیں لگتا
کھوتا جاتا ہوں اندھیروں میں
اب ڈر مجھ کو تو نہیں لگتا
غم بڑھ چکے ہیں اتنے اوراب یہ حالت ہے
مرنے کے سوا کوءی چارہ تو نہیں لگتا
ہزاروں وعدےکیے روح قفس نے
اب گزر ہو اس کا ادھر تو نہیں لگتا
چل پڑا ہے جس راہ کاروان کو دنیا
پہنچے منزل کو ایسا تو نہیں لگتا