یاد آتا ہے کیوں اُس سے گلہ ہوتا ہے
وہ جو اِک شخص ہمیں بھول چُکا ہوتا ہے
ہم تیرے لطف سے نادم ہیں کہ اکثر اوقات
دِ ل کسی اور کی باتوں سے دُکھا ہوتا ہے
مِل گئے ہو تو چلو رسمِ زمانہ ہی سہی
ورنہ اب پرستشِ احوال سے کیا ہوتا ہے
اِس قدر زہر نہ تھا طنز حریفاں پہلے
اب تو کچھ خندہ یاراں سے سوا ہوتا ہے
سادہ دل چارہ گروں کو نہیں معلوم فراز
بعض اوقات دلاسہ بھی بلا ہوتا ہے