یاد ماضی میں آنکھوں کو سزا دیتا ہوں
یاد آنے سے پہلے ہی اسے بھلا دیتا ہوں
جس سے تھوڑی سی امید، زیادہ ہوتی ہے
ایسی ہر شمع، میں سر شام بجھا دیتا ہوں
دل کے دریچے میں نہ جھانک پائے کوئی
دل کے آنگن میں اک دیوار اٹھا دیتا ہوں
اپنوں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا، میں نے
کہ دشمن کو بھی اب جینے کی دعا دیتا ہوں