میں چاہے جتنا بھو لوں وہ زمانے یاد آتے ہیں
خمار آلود ماضی کے فسآتے یاد آتے ہیں
ہماری عمر رفتہ واپس آ جاتی ہے کچھ پل کو
کبھی جب یار اپنے کچھ پرانے یاد آتے ہیں
نہ پزا تھا - نہ برگر تھا - تھی بریانی کباب انڈے
بھر آتا منھ میں پانی جب وھ کھانے یاد آتے ہیں
مرا پیماں شکن دلبر - اور اس کی دل شکن باتیں
وہ جھع ٹی قسمیں - وہ جھو ٹے بہانے یاد آتے ہیں
ہزاروں دل جنھیں سن کر دھڑک اٹھتے تھے مستی میں
رفیع صاحب کے گانے وہ پرانے یاد اتے ہیں
کبھی دور جوانی بھول کر بچپن میں اگر جھانکا
توقصے اور بھی کیا کیا نہ جانے یاد آتے ہیں
پڈے جب ڈانٹ ابو کی - تسلی دینا امی کا
ستانا بہنوں کا - بھائ کے طعنے یاد آتے ہیں
‘حسن‘ ہے یاد ماضی بھی مداوا درد حاضر کا
برے حالوں میں اکثر دن پرانے یاد آتے ہیں