یادوں سے نکلنے کا اشارہ کر کے
وہ چھوڑ گیا مجھے پارہ پارہ کرکے
ساحل پے کھڑے تماشائی سے کم نا تھا
ڈوبتا دیکھا اور چل دیا نظارا کر کے
میرے وجود کو بھی نا کر سکی تلاش
ایسی بچھڑی روح مجھ سے کنارا کر کے
سبق اتنا ہی کافی تھا عبرت اتنی ہی کافی تنویر!
اب ہو گی نا محبت تم سے دوبارہ کر کے