یادوں کا آسیب
Poet: شبنم فردوس By: Shabnam Firdaus, Patna . Indiaپلکوں کا چلمن گرا کر
آنکھوں کے دریچوں کو بند کرکے
نیند کی حسین وادیوں میں
نیند کی پریوں کی تلاش میں
میری نظریں جب
ادھر ادھر بھٹکتی ہیں
تمہاری یادیں
میرے ذہن کے زندان سے نکل کر
کسی آسیبی سائے کی مانند
میرے سامنے آ دھمکتی ہیں
میرے کانوں میں
سرگوشیاں کرتی ہیں
میں گھبراہٹ میں
ساری دعائیں ورد کرنے لگتی ہوں
لیکن سب بےسود
یہ سرگوشیاں
میرے کانوں میں
ویرانے میں کسی مندر
کے گھنٹے کی طرح
زور زور سے شور مچاتی ہیں
میں نہ چاہتے ہوئے بھی
پلکوں کی اوٹ سے
انہیں دیکھنے کی گستاخی کر ہی لیتی ہوں
اور پھر
وہ مجھے اپنے آسیب میں جکڑ کر
میری انگلیاں تھامے
ہولے ہولے چلتے ہوئے
یادوں کی
ویران بستی میں لے جاتی ہیں
جہاں آرزوؤں کے جگنو
خوشیوں کی تتلیاں
خواہشوں کے پنچھی
اداسیوں کے کفن میں
مدفون ہیں
تمہارے وعدے
تمہاری قسمیں
ساتھ بتائے سارے لمحے
مجھے مسکرا مسکرا کر
ایسے دیکھے جاتے ہیں
جیسے کسی ننھے بچے کو
اسکا من چاہا کھلونا مل گیا ہو
وہ تمہارا عہد
عمر بھر ساتھ رہنے کا
صرف میرے بنے رہنے کا
میری نظروں کے سامنے
محو رقص ہوتا ہے
او ر پھر عالمِ بےبسی میں
میری آنکھوں سے
جذبات کے موتی
یوں بکھرنے لگتے ہیں
جیسے خزاں میں پتے
اپنی شاخوں سے ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
انہیں سمیٹتے بٹورتے
شب کی چادر
کب سرک جاتی ہے
مجھکو احساس ہی نہیں ہوتا
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






