یادوں کی دیمک لگ گئی ہیں دل میں
چہرے پر روانی کہاں سے آئے گی
خالی ہاتھوں پر مہندی کا ارمان لیے ترستے رہے
کبھی سوچا ہی نہیں وہ مہندی کہاں سے آئے گی
بے خبر دیوانوں کی طرح راستوں میں کھڑی رہی
ُاس سے پوچھا نہیں ُاس کی سواری کہاں سے آئے گی
بے نقاب دیکھ لیا اب تو ُاس نے مجھے لیکن
ُاس کی خوشی میں راز داری کہاں سے آئے گی
کتنی خاموش وہ شخص محبت کرتا ہے مجھے
نہیں معلوم اظہار کی بے قراری کہاں سے آئے گی
خدا نے پیدا کیا ہے تو پھر خدا پر ہی سونپ دیتی ہوں
ُاس کے چاہے بناء میری زندگی میں خوشی کہاں سے آئے گی