اِسی خاموش دسمبر میں ملے تھے ہم تم
اِس برس بھی وہی خاموش دسمبر ہے مگر
تو نہیں پاو تو یخ بستہ ہَواییں اِس کی
دِل میں یادوں کو جگانے کلیے آتی ہیں
ہر طرف سے ہی اُداسی کا چراغاں کر کے
چلی جاتی ہے مجھے چھوڑ کے تنہا تنہا
میں اُداسی کی چراغوں کی حسیں محفل کو
تیری ہر یاد کی خوشبو سے سجا دیتا ہوں
اور اِسی شامِ دسمبر میں یہ محفل دِل کی
مجھے لگتی ہے ویرانے میں گلابوں کی طرح
بس یہی آس سجادیتا ہوں اپنے دِل میں
کہ کبھی پِھر سے یہ خاموش دسمبر آیے
تو تیرے وِصل کی خوشیوں کا چراغاں کر دوں
تیری قربت میں گزر جایے دسمبر سارا
اِسی اُمید سے ہر شام گزرجاتی ہے
جیسے اِک حسرتِ ناکام گزر جاتی ہے۔