یادوں کے چراغ پھر سے جلنے لگے ہیں دیکھ کر اُسے پھر زخم تازہ ہونے لگے ہیں ستا رہے ہے اب اپنے ہی یار نام لے لے کر اُس کا بلانے لگے ہیں اٹھی ہے مہک پھر یادوں کے باغ سے پھر وہ یار بے حساب یاد آنے لگے ہیں