بڑے خوابوں سے سجایا تھا وہ گلستاں میں نے
پھر کچھ ایسی ھوا چلی کہ فقط کانٹے رہ گے
اب بھی آنسوؤں سے آبیاری کرتا ھوں اس گلستاں کی میں
سب خواب ٹوٹ گے مان ادھورے رہ گے
وہ پیاری سی صورت مثل رخ برگ گلاب
وہ آنکھ کے تارے آنکھوں میں چمکتے رہ گے
ان دلوں کے جزبات کو کون سمجھے اے دانش
لوگ دیکھ کر چل دے ۔ ۔ وہ دھڑکتے رہ گے