اس دیس کی کیا ھم بات کریں جس دیس میں اب رھتے ھیں
اس دیس کو آؤ ھم یاد کریں جس دیس کو ھم نے چھوڑ دیا
آؤ پھر سے کھلائیں یادوں کے پھول جن کی خوشبو ابھی باقی ھے
تم یادوں کی سوغات لاؤ یاد ماضی جس کو ھم نے چھوڑ دیا
خدا کرے کہ تم بھی میری یادوں کے سلسلے کبھی نہ بھلا سکو
یادوں کے دیپ سے درد کی چنگاری سلگی اس کو ھم نے چھوڑ دیا
پردیس میں یادوں کی برسات میں آج پھر جم کے گٹھا برسی ھے
دل سے یاد کا پھر شور اٹھا مگر وہ دل جس کو ھم نے چھوڑ دیا
کیوں نہ پھر دل میں سجا لیں یادوں کے محل آج کی رات
حسن یادوں کی بارات آئی ھے اگرچہ یادوں کے دیس کو ھم نے چھوڑ دیا