ماضی کی منڈیر پر بیٹھیں ، بہت شور مچاتی ہیں
اپنی اور بلاتی ہیں ، یادیں بلبل ہوتی ہیں
جتنا پیار سے سوچو گے یہ آنسو دے کے جاتی ہیں
یاد تو پھر بھی آتی ہیں ، یادیں سنگدل ہوتی ہیں
کئی رازبھی پنہا ہیں ،اور خدشے بھی ہزاروں ہیں
کھو نہ جانا اس میں تم، یادیں جنگل ہوتی ہیں
عشق کے سوکھے صحرا میں ، گرج برس کو آتی ہیں
دل کی آگ بجھاتی ہیں ، یادیں جلتھل ہوتی ہیں
پہلے آتی جاتی سانسوں میں ارتعاش سا پیدا کرتی ہیں
پھر پورا وجود ہلاتی ہیں ، یادیں ہلچل ہوتی ہیں
کتنی گہری ، کتنی چوڑی ، کسی کو کچھ پتہ نہیں
جو سوچے وہ دھنستے جائے ، یادیں دلدل ہوتی ہیں