یادیں پرانی لے کر آئی نئی ہے سردی
اک نازلی، حسینہ بانکی ادا ہے سردی
ٹھنڈی ہوا سے دھکے زخمِ جگر پرانے
بہلے ہوئے غموں کو تڑپا گئی ہے سردی
منظر ہوئے سہانے، چاندی بھری ہوا ہے
چاندی کے گہنے شب کو سب دے گئی ہے سردی
اب دھوپ بھی ملے گی محبوب کی طرح سے
طرزِ عمل ہے نا کہ طرزِ فکر ہے سردی
لطف و کرم میں چائے ثانی نہیں ہے رکھتی
پی لو یا کہ پلاؤ ، اب چھا گئی ہے سردی
ہوں گے سبھی اکٹھے لنڈے کے نیچے جھنڈے
احساسِ آدمیت دکھلا گئی ہے سردی
منکی نٹوں سے ہو گا لطفِ دہن دوبالا
میوے طرح طرح کے لاتی بڑے ہے سردی
ہمدردی کے تقاضے کوئی ہمیں سکھائے
خود غرض اس فضا میں وحشی ہوئی ہے سردی
نزلہ ،زکام ،کھانسی سب اس کی ہیں عطائیں
رکھو خیال اپنا،گردن پکڑ ہے سردی
پنچھی، پکھیرو کتنے اس نے ہیں مار دینے
جلاد ہے پوشیدہ، گوری مگر ہے سردی
سردی کرے حکومت، دل اس کی راج دھانی
بچ جاؤ مرتضائیؔ ، ظالم بڑی ہے سردی