یار جب تُو مجھے میسر تھا
ایک اک پل بہت معطر تھا
اب دسمبر بھی جون لگتا ہے
اشک آنکھوں میں خون لگتا ہے
دل کی دھڑکن میں کب تسلسل ہے
بے قراری سے اک مسلسل ہے
تیری آغوش میں مرا سونا
ہائے کمبخت اب مرا رونا
ہر گھڑی کاٹ کاٹ کھاتی ہے
غم زدہ کو بھی نیند آتی ہے
ایک دن سال کے برابر ہے
یار یہ بھی کوئی دسمبر ہے
وہ دسمبر کے یار جیسا تھا
رُت خزاں میں بہار جیسا تھا
لمحہ لمحہ مرا منور تھا
یار جب تُو مجھے میسر تھا
ہائے کیسا وہ بھی دسمبر تھا