یار مجھکو سرے بازار یوں رسوا نہ کرو
میری برباد محبّت کا تماشہ نہ کرو
میں وہ آئینہ ہوں سچ جس میں نظر آتا ہے
تم کو ڈر ہے تو مرے سامنے آیا نہ کرو
دل کے سوۓ ہوئے زخموں کو ہوا لگتی ہے
یار محفل میں مرے نام کا چرچا نہ کرو
ایک دو روز کی مہمان ہوں اس بستی میں
خود چلی جاؤں گی تم آنکھ دکھایا نہ کرو
میں وو گلشن ہی نہیں جس میں بہاریں آئیں
مجھ سے پھولوں کی مرے یارتمنا نہ کرو
یہ سبق ہم کو بزرگوں سے ملا ہے" وشمہ
جان دے دو مگر ایمان کا سودا نہ کرو