یار ہے نہ کوئی بہار اپنی
گزری ہو کے ساری خوار اپنی
سنتا نہیں کوئی ہجوم شہر میں
ہوئی ہے صدا بصحرا پکار اپنی
کہاں ہے وہ شخص ، جس پر
کرنی ہے ہمیں جاں نثار اپنی
برسات کے دیکھنے والوں کو
دکھانی ہے چشم اشک بار اپنی
گزرے چپکے سے قریب سے یوں
نہ آئی نظر لوح مزار اپنی
بعد مرگ بھی ہیں کھلی آنکھیں
نہ گئی مگر خوئے انتظار اپنی
ہکدرد ہے نہ درد آشنا کوئی
کہیں پھر کسے حالت زار اپنی
عبث ہے شکوہ بیداد کرنا
خامشی سے زندگی گزار اپنی
یاد رہے گی تا دیر بہت
گزری کیسے حیات مستعار اپنی
کرنا پڑے گا کتنا انتظار اور
چھوٹے گی کب جان بیقرار اپنی
چھوڑ دو ہمیں حال پر ہمارے
فقیہہ شہر سنبھال تو دستار اپنی
زہر ہے سفر ، تنہائی کا مجھے
لاؤں کہاں سے قسمت بیدار اپنی
دھوپ کا سفر طویل ، مگر کہاں
قسمت میں سایہ دیوار یار اپنی
کہیں کس کو ہم گھر اپنا
در ہے نہ کوئی دیوار اپنی
ملو گے تو پاؤ گے طاہر
جدا سب سے ہے گفتار اپنی