یوں تنہا جینے کی مجھے عادت سی ہو گئی ہے
آنجان راہوں پر چلنے کی عادت سی ہو گئی ہے
وہ میری محبت سے رہیں بے بے خبر تاقیامت
مجھے یہ دُعا مانگنے کی عادت سی ہو گئی ہے
بتاو کب تک جتلاوں گا میں اُن سے محبت اپنی
اُن آنکھوں کو سچ بولنے کی عادت سی ہو گئی ہے
جانے کیوں شام ڈھلتےہی یہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
چہرے کو اِشکوں میں چھپانے کی عادت سے ہو گئی ہے
آسمان میں بھی چمکتا ہر ستارہ یہ گواہی دے گا
تمہاری یاد میں نیندیں گوانے کی عادت سی ہو گئی ہے
اِس دنیا میں شاہد میری محبت کو کوئ سمجھ نہ سکے
لوگوں کو مجھے نہ سمجھانے کی عادت سی ہو گئی ہے
اب تو محفل میں ہر شخص یہ گلہ کرتا ہے مسعود
مجھے تنہائیوں میں ڈُوبنے کی عادت سی ہو گئی ہے