یوں تو کریں عشق اپنی جوانی میں
چڑھا تو نیا چاند کوئ اپنی رُباعی میں
لیل و نہار چاند ستاروں کی مجلس میں
رہے چرچہ یوں عشق کا گَردُوں میں
ملے عمر حیات یوں عشق کی حقیقت میں
پیالہ چڑھا امرت کا عشق کی ساعت میں
وگر نہ ہوتا نہ امر کوئ معشوق زمانے میں
گو فنا ہوتا ہے عاشق رہتا ہے کردار زندہ زمانے میں
درخشندے تو بھی چل دے خاموشی سےوقت آنے پر
چھوڑ کے تحریر اپنی شاعری کی صورت زمانے میں