یوں تو ہر سو جو میلے تھے میلے رہے
ہم اکیلے تھے اور ہم اکیلے رہے
بزم دنیا میں کیا کیا نہ میلے رہے
اس جہاں کے عجب ہی جھمیلے رہے
روشنی کی تگ و دو میں جلتے ہوئے
دور تک شام کے سائے پھیلے رہے
کوئی تو ہو جو ہم کو پکارا کئے
دل میں بس حسرتوں کے ہی ریلے رہے
ایک دل کی لگی کا ہی صدمہ نہیں
اور بھی دکھ زمانے کے جھیلے رہے
دامن دل کی بابت یہی کچھ رہا
ٹوٹی پھوٹی سی یادوں کے میلے رہے
عظمٰی ہم بھی زمانے کی اسٹیج پر
کیسے کیسے عجب کھیل کھیلے رہے