یوں لگتا ہے اب ملنا تو دشوار،بہت ہے
ملتا ہی نہیں یار ، کی تکرار بہت ہے
ہوئی ہے حقیقت ہی عیاں ملنے گیا جب
بستر میں پڑا دیکھا ہے بیمار بہت ہے
جب دیکھا کواڑوں کو مقفل ہی دیا کر
سن رکھا یہی تھا کہ ملنسار بہت ہے
رہتا ہے مرے دل میں وہ دلدار ہے میرا
ڈرتا وہ کسی سے نہیں جیدار بہت ہے
لگتی ہے یہاں بولی حسیں چہرے زیبا پر
اب جسم کا ملتا تو خریدار بہت ہے
جب میں نے بلایا ہے چلا بھاگ کے آیا
جیسا بھی ہے لیکن وہ وفادار بہت ہے
جنت کا طلبگار ہوں دوزخ یہ ملے کیوں
کہتے ہیں کہ شہزاد گنہ گار بہت ہے