یوں نکلتی ہے مری بات دہن سے اس کے

Poet: لطف الرحمن By: راحیل, Quetta

یوں نکلتی ہے مری بات دہن سے اس کے
جیسے برسوں کا تعارف ہو بدن سے اس کے

یوں سر بزم ملا ٹوٹ کے اک عمر پہ وہ
ہم بھی گھبرا گئے بے ساختہ پن سے اس کے

اس کا لہجہ ہے کہ بہتی ہوئی نغموں کی ندی
جیسے الہام کی بارش ہو سخن سے اس کے

اس سے مل کے بھی خلا اب بھی وہی روح میں ہے
مطمئن دل بھی نہیں سرو و سمن سے اس کے

خلقت شہر نے افسانے تراشے کیا کیا
دل تہی دست ہی لوٹا ہے چمن سے اس کے

اس طرح شہر صلیبوں سے سجایا اس نے
کوئی محفوظ نہیں دار و رسن سے اس کے

دیکھنا کس کے لہو سے ہے چراغاں مقتل
ایک اگتا ہوا سورج ہے کفن سے اس کے

Rate it:
Views: 332
31 Jan, 2022
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL