یوں نکلتی ہے مری بات دہن سے اس کے
جیسے برسوں کا تعارف ہو بدن سے اس کے
یوں سر بزم ملا ٹوٹ کے اک عمر پہ وہ
ہم بھی گھبرا گئے بے ساختہ پن سے اس کے
اس کا لہجہ ہے کہ بہتی ہوئی نغموں کی ندی
جیسے الہام کی بارش ہو سخن سے اس کے
اس سے مل کے بھی خلا اب بھی وہی روح میں ہے
مطمئن دل بھی نہیں سرو و سمن سے اس کے
خلقت شہر نے افسانے تراشے کیا کیا
دل تہی دست ہی لوٹا ہے چمن سے اس کے
اس طرح شہر صلیبوں سے سجایا اس نے
کوئی محفوظ نہیں دار و رسن سے اس کے
دیکھنا کس کے لہو سے ہے چراغاں مقتل
ایک اگتا ہوا سورج ہے کفن سے اس کے