یوں نہ دل کے اجڑوں کو تڑپایا کرو
کبھی تو اپنا دیدار کروایا کرو
بِن تمہارے مدھم سی لگتی ہے چاندنی رات
میرے اندر اپنی یاد کے دیے جلایا کرو
ہم جو ہر وقت تاک میں تمہاری رہتے ہیں
کبھی ہمارے آشیانے پر بھی آیا کرو
بیدار دہے تمام رات یاد میں تمہاری
اپنے شانے پر سر رکھ کے کبھی تو سلایا کرو
حقیقت میں نا سہی، خیالوں میں ہی
کہیں تو اپنا کہہ کر میرا دل بہلایا کرو
اور محبت روح سے ہوتی ہے جسموں سے نہیں
ان حوس پوجاریوں کو یہ اصلیت بھی بتایا کرو
تڑپ رہا ہے اک دید کی خاطر عمار
کبھی تو رُخ سے پردہ ہٹایا کرو