یوں نہ ہر گام آنکھ پانی کر
مہنگی چیزوں کی قدردانی کر
زورِ بازو جوان ہے جب تک
دور تیرا ہے حکمرانی کر
درد کو کھینچ پھینک سینے سے
پھر تسلی سے باغبانی کر
مرتبہ دیکھ عشق والوں کا
اپنی خصلت پر نظرِ ثانی کر
عشق کرتا ہے تو زہر بھی پی
یوں نہ ماتم نہ شربیانی کر
ہاں گوہر یہ نہیں تو اتنا کر
عشق نہ کر کہ مہربانی کر