یوں نہیں کہ مجھ میں حوصلہ نہیں
یوں ہے کہ مجھ میں خود خواھی نہیں
یوں ہے کہ مجھے ڈوب جانے کی عادت ہے
یوں ہے کہ کبھی تم سے آگے دیکھا نہیں
یوں ہے کہ میری نَس نَس میں مہک ہے تیری
یوں ہے کہ میں نے کسی اور کو سوچا نہیں
یوں ہے کہ شب بھر رہتی ہے ستاروں سے گفتگو
یوں ہے کہ کبھی چاند کی خواہش نہیں کی
یوں ہے میرے حصے میں غم کے ہیں طوفان بہت
یوں ہے کہ کبھی در در میں جُھکا نہیں
یوں ہے کہ تجھے پوجھا ہے خدا کی طرح
یوں ہے کہ تیرے آستانے سے میں ہٹا نہیں
یوں ہے کہ شہر کی گلیاں ویران ہیں نفیس
یوں ہے کہ کبھی اس شہر تجھے دیکھا نہیں