یوں کب تک آخر مجھے ستاؤ گے
اِک نہ اِک دن تو پچھتاؤ گے
خون اُگلو گے تم بھی آنکھوں سے
میری ہی طرح خود کو رُلاؤ گے
جیسے پھرتی ہوں تمہارے پیچھے
پیچھے پیچھے تم بھی میرے آؤ گے
آؤ گے انصاف کے میدان میں تم بھی
تقدیر سے بچ کر کہاں جاؤ گے
جیسے پشیمان مَیں محبت کر کے تم سے
منہ اُٹھاتے میرے آگے شرماؤ گے
ہمیں تو سمجھا لیتے تھے تم اپنی
بے درد زمانے کو کیسے سمجھاؤ گے
ہم ہی تھے جو نادان تھے
زمانے کو کیسے اُلجھاؤ گے
میرے ماضی پر تم ہنسا کرتے ہو
پھر جو بیتے گا ٗ کیسے بُھلاؤ گے
ہمارے سوا کون ہے یہاں تمہارا
میرے بعد کس کو اپناؤ گے
کون سنے گا دنیا میں صرف تمہاری
کس کو ہر وقت اپنی سناؤ گے