مجھ کو نہیں ہے اتنا بھی پیار زندگی سے
لیکن نہیں ہے پھر بھی انکار زندگی سے
دھوکے ملے ہیں مجھ کو ھربار ھر کسی سے
اٹھتا نہیں ہے پھر بھی اعتبار زندگی سے
حالات سے تم ایسے لڑتے جھگڑتے رہنا
ہونے نہ دینا خود کو بیزار زندگی سے
ہم لاکھ نکل جائیں اک دوسرے سے آگے
بڑھتا نہیں ہے پھر بھی رفتار زندگی سے
موقعہ یہی ہے سمجھو اے یار زندگی گو
موقعہ نہیں ہے ملتا ھربار زندگی سے
کانٹے جڑے ہیں پھولوں کے ساتھ ھرچمن میں
رشتہ تو کچھ ہیں رکھتے یہ خار زندگی سے
ان سے بھی زندگی کا اپنا مزا ہے یارو
کیوں کر الگ کروں میں آزار زندگی سے
یہ وقت کی ستم ہے اب کوچ کر رہے ہیں
سب ایک ایک ہو کے غمخوار زندگی سے
چاھت نے اس کی میری تو زندگی بنا دی
پیارا ہے مجھ کو میرا دلدار زندگی سے
اے میر~ زندگی کو زندہ دلی سے جینا
یوں ہی گزر نہ جانا بیکار زندگی سے