عہد گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو
ایک آوارہ منزل کو ستاتی کیوں ہو
وہ حسین عہد جو شرمند ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو
زندگی شعلہ بےباک بنا لو اپنی
خود کو خاکستر خاموش بناتی کیوں ہو
کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو
ایک سرکش سے محبت کی تمنا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو
میں سمجھتا ہوں تقدس کو تمدن کا فریب
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو
جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر میری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ (گھر والے) جہاں کہتے ہیں شادی کر لو