جبکہ بہت دور ہو تم تو پھر
تم سے بات کیسے کرتے
جو بہہ رہے تھے اشک انہیں
تیرے ہاتھوں سے صاف کیسے کرتے
دل کی بستی ہیں بہت ویران جاناں
ہم تیرے بناء ُاسے آباد کیسے کرتے
یہ جدائی خواب ہیں یا حقیقت ہیں
ہم تجھ سے یہ سوال کیسے کرتے
کیتنا صبر کیا ہیں تجھے دیکھنے کو تو جب
ُتو سامنے ہیں تو نظروں کو جھکا کر بات کیسے کرتے
یوہی تماشا بن گئی محبت ہماری
یا خدا ! ہم اپنی پقیذگیی کا اقرار کیسے کرتے
ہمارے اپنے ہی تو ہیں کشتی ڈبونے والے
تو پھر ہم دریاوں کو پار کیسے کرتے
یہ آخری دیا ہیں جو جلا دیا تیرے نام کا مولا
تیرے ہوتے ہم خود کو کسی کا طلبگار کیسے کرتے