یہ آنکھ بھی، یہ خواب بھی، یہ رات اُسی کی
ہر بات پہ یاد آتی ہے، ہر بات اُسی کی
جگنو سے چمکتے ہیں اُسی یاد کے دم سے
آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں سوغات اُسی کی
ہر شعلے کے پیچھے ہے اُسی آگ کی صورت
ہر بات کے پردے میں حکایات اُسی کی
لفظوں میں سجاتے ہیں اُسی حسن کی خوشبو
آنکھوں میں چھپاتے ہیں شکایات اُسی کی
کیا کیجیئے اچھی ہمیں لگتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ دل میں ہر بات اُسی کی
جس شخص نے منظر کو نئے پھول دیئے تھے
ہیں دور خزاں پر بھی عنایات اُسی کی
آتا ہے نظر مجمعِ احباب میں عادل
لاکھوں میں اکیلی ہے مگر ذات اُسی کی