یہ آنکھ تو ہر لمحہ اشکبار رہتی ہے مگر
بہت عرصے سے اس دل نے رونا چھوڑ دیا ہے
یہ سچی محبتیں بہت مہگی پڑیں مجھے
دن رات کسی کے حیال میں تڑپنا چھوڑ دیا ہے
نہیں ملتا کنارہ کوئی میری مضطر تمناؤں کو
آنسوؤں نے درد کے دریا میں مچلنا چھوڑ دیا ہے
وہ کیا تعلق جو منزلوں کی پہچان بھلا دے
اب کسی اپنے کی سنگت میں چلنا چھوڑ دیا ہے
بظاہر تو میں زندہ ہوں اور سانس چلتی ہے
پس پردہ اب میں نے جینا چھوڑ دیا ہے
غم ہجر کے سب چراغ بجھا دئیے میں نے
ان سوختہ جاں شعلوں میں جلنا چھوڑ دیا ہے
بہت بے رنگ ہے زندگی تیرے یوں بچھڑنے سے
اب تیری یاد سے اپنا دامن بھگونا چھوڑ دیا ہے