یہ اذیت ہے کہ محرومِ تمنّا رہنا
یعنی ساحل پہ ہمہ وقت ہی تشنہ رہنا
مجھ پہ آسیب کا سایہ ہے مسلسل جاناں
میرے ہمراہ جو رہنا تو جدا سا رہنا
مجھ سے روتی ہوئی آنکھیں نہیں دیکھی جاتیں
اب تو مشکل ہے تسلسل سے مسیحا رہنا
اب غمِ ترکِ تعلق نہ محبت کا ملال
یوں ہی عادت ہے کہ محفل میں بھی تنہا رہنا
روئے خوش رنگ کے جلوے ہیں پرائے انجم
اُٹھ کے بے کار ہے مصروفِ تماشا رہنا