یہ اور بات دور رہے منزلوں سے ہم
بچ کر چلے ہمیشہ مگر قافلوں سے ہم
ہونے کو پھر شکار نئی الجھنوں سے ہم
ملتے ہیں روز اپنے کئی دوستوں سے ہم
برسوں فریب کھاتے رہے دوسروں سے ہم
اپنی سمجھ میں آئے بڑی مشکلوں سے ہم
منزل کی ہے طلب تو ہمیں ساتھ لے چلو
واقف ہیں خوب راہ کی باریکیوں سے ہم
جن کے پروں پے صبح کی خوشبو کے رنگ ہیں
بچپن ادھار لائے ہیں ان تتلیوں سے ہم
کچھ تو ہمارے بیچ کبھی دوریاں بھی ہوں
تنگ آ گئے ہیں روز کی نزدیکیوں سے ہم
گزریں ہمارے گھر کی کسی رہ گزر سے وہ
پردہ ہٹائیں دیکھیں انہیں کھڑکیوں سے ہم
جب بھی کہا کہ یاد ہماری کہاں انہیں
پکڑے گئے ہیں ٹھیک تبھی ہچکیوں سے ہم