یہ اُداس دن یہ اُداس سی شام ہے
کاٹتا نہیں ہے یہ وقت اب تُم آ جاؤ
اِب تو میرے آنُسو بھی آواز دیتے ہیں
کیا اُنہیں تُم سُن رہے ہو نا کہیں پہ
اِدھر اکیلا راہ گُزر پہ کھڑا ہوں میں
سوچتا ہوں کہ شاہد تُم یہاں سے گُزرو
یہ زندگی اور یہ میرے اُدھرے سے خواب
اب تو بتا اِن کو لے کے میں کہاں جاؤں
میری تو زندگی گُزر گئی ہے سراب میں
میں نے کیا پایا کیا کھویا اب تُم ہی بتاؤ
میرے سارے خواب ڈھل گئے آنُسو بن کر
بہت ہو چکا مسعود اب تو تُم آ بھی جاؤ