یہ اِک ٹینشن
مجھے اندر ہی اندر مار ڈالے گی
نہ جانے پر سکون نیند مجھے ہو نصیب کب
کبھی فکرِسحر رہے تو کبھی انتظارِ شب
بھلا
یوں ہی حالات کے بھروسے کب تک مجھ کو
در بدر ٹھوکروں کا سامنا کرنا ہو گا
مفلسی کے سفر کے اِس تاریک رستے پر
چاک در چاک لبادہِ بے بسی اوڑھے
ہر ایک شخص میرے رو برو کھڑا ایسے
کسی سنگین حادثے سے ڈرا ہو جیسے
میں
اِک لمحے کو سبھی رنج و ستم بھول تو جاؤں
پر
فضا میں جب کسی طائر کو بھٹکتا دیکھوں
کسی بچے کو بنا دودھ بلکتا دیکھوں
کسی بوڑھے کو بڑھاپے میں سسکتا دیکھوں
کسی نو عمر کو چوری پہ آمادہ دیکھوں
تو گویا سوچ کی اِک گہری ندی میں ڈوب جاتا ہوں
نہ جانے اور کتنے ہدفِ مفلسی ہوں گے
نہ جانے کتنے دلوں میں ابھی آزار ڈالے گی
یہ اِک ٹیشن مجھے اندر ہی اندر مار ڈالے گی