یہ بات شہر میں کوئی بتا گیا ہے
تجھے پھول مجھے کانٹا بنا گیا ہے
میں تو رہا غیر اپنا بھی نہ بن سکا
وہ اپنا کیا خوب تعارف کرا گیا ہے
ٹوٹے ہیں شجر بکھرے ہیں پتے
جیسےغول ادھر سے گزر کیا ہے
ہمیں تو ڈرایا آندھیوں نے اسقدر
وہ درد کو روح کا حصہ بنا گیا ہے
وہ بیٹھا رہا شب بھر میرے پہلو میں
مجھ سے پھر بھی کچھ نہیں کہا گیا ہے