یہ کون تھی
جس کے ہونٹوں کے چیتھڑوں پر
نیلاہٹ جم چکی تھی
ہر سانس سے عاری
جس کی آنکھیں لہو
رو رو کر
تھم چکی تھیں
جس کے چہرے کی یاسیت دیکھ کر
صحراوٴں کی پیاس
بھی منہ چھپاۓ
گرد زمانہ سےاٹے
جس کے گیسو
زندگی کی تھرتھراہٹ
تقدیر کی کشمکش کی طرح
اُلجھے ہوۓ ہیں
یہ ماں کس کی تھی
یہ ماں کون تھی
کچے سے گھر کے دروازوں
میں کبھی جس کی آنکھیں
اپنی ننھے مسعود کی
ہوا کرتی تھیں منتظر
اب آنے والوں
کی راہ تکتے تکتے یہ
شمعیں بھی گُل ہوئی ہیں
اب دہلیز کی کھوکھ
آہٹ کی اُمید ہے
بانجھ ہو چکی تھیں
یہ کون ہے جو گھر کے
اجاڑ صحن میں سپاٹ
آنکھیں سلے ہونٹ لیے
سو رہی ہے
ہاں
یہ تو میری ماں ہے
یہ تو میری ماں ہے