یہ جو آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
عاشقی میں کوئی کمی سی ہے
میری تنہائیوں کا ذکر ہی کیا
میری محفل بھی ماتمی سی ہے
شعلہ زن تھے کبھی، وہی جذبے
برف کچھ ان پہ اب جمی سی ہے
ایک دھوکہ ہے زندگانی بھی
آگ سی ہے کہ شبنمی سی ہے
کہتے ہیں چھپ چھپا کے کرنی ہے
میری نیکی بھی مجرمی سی ہے
اس میں دکھ سکھ ہیں، جینا مرنا ہے
زندگی جیسے موسمی سی ہے
اُسکا لہجہ طلسمِ ہوش رُبا
اس پہ پوشاک ریشمی سی ہے
ٹھہرو ٹھہرو ابھی نہ پوچھے کوئی
بات تھوڑی ابھی جمی سی ہے
سمجھے تھے عشق ہی خطائیں کرے
وہ پری رُخ بھی آدمی سی ہے
کیا ہوا ہے ندیم کیوں چپ ہو
چشم کیوں تر ہے کیا غمی سی ہے