یہ جو ہوائیں چلتی ہیں
ان پر اعتبار مت کرنا
نجانے کس دیس سے آئی ہیں
اور کیوں
ان کی آوارا مزاجی پر
پھر کوئی غزل مت کہنا
سنو یہ میرے سپنے بکھیر گئی تھی
ان سے بچنا
پر سے کوئی دا نا جلانا
کہ دیے کی جلتی لؤ کو
یہ دیکھ نا پائے گی
کسی کی آس کو یہ سہ ا پائے گئی
میں نے ریت کے ساحل پر اک گھر بنایا تھا
یہ ایک ہی جھونکے میں مٹ گئی تھی
تب سے میں بے گھر ہی رہتی ہوں
سنو
یہ بھٹک گئی تھی
تبھی تو ہر طرف سوگواری ہے
اب تو خو شی پر بھی
غم کی راج داری ہے
کبھی اپنے من کی مت سننا
ان کو تم رستہ مت دیکھانا
سنو
یہ ہوائیں جو چلتی ہیں
ان پر اعتبار مت کرنا
شاعرہ سیاں شام