یہ جھوٹ کا بیج کس نے بویا ہے
ماں روتی نہیں شاںد بچہ سویا ہے
زندہ ھیں لوگ اسی کشمکش میں یہاں
جو پایا وہ کھویا جو کھویا وہ پایا ہے
قدم لڑکھڑائے نہیں دستار گرنے تک
سر نے ہمارے پاؤں کا بوجھ اٹھایاہے
اب بھی نہ قبول ہوں تو قیامت ہو گی
ہر اشک گرنے سے پہلے بارہا دھویا ہے
بادباں سے گلہ کیا ناخدا سے شکایت کیسی
ساحل کی رقابت نے میری کشتی کو ڈبویا ہے