یہ حقیقت ہے کہ ہوتا ہے اثر باتوں میں
تم بھی کھل جاؤ گے دو چار ملاقاتوں میں
تم سے صدیوں کی وفاؤں کا کوئی ناطہ تھا
تم سے ملنے کی لکیریں تھی مرے ہاتھوں میں
تیرے وعدوں نے ہمیں گھر سے نکلنے نہ دیا
لوگ موسم کا مزہ لے گئے برساتوں میں
اب نہ سورج نہ ستارہ ہے نہ شمع ہے نہ چاند
اپنے زخموں کا اجالا ہے گھنی راتوں میں