یہ دَرد اِنعام ہے خاص بہت
ہر عام کو یہ مِلتا بھی نہیں
نہ رونے دے نہ ہنسنے دے
اِسے ہر اِک سہہ سکتا بھی نہیں
یہ آتش دِل میں بَھڑکائے
پِھر جگر کو جا کہ سلگائے
چہرے پہ زردی پھیلائے
پر ظاہر میں تپتا بھی نہیں
یہ گوہر ہے نایاب بُہت
اِسے رول نہ دینا پا کہ تُم
جب لب پہ شکایت آجائے
تو دِل مین یہ بَستا بھی نہیں
یہ رب سے مِلانے والا ہے
مَنزل “ دِکھلانے “ والا ہے
پر وارثی عشرت کیا جانے
ٹہراؤ نہیں - سُنتا بھی نہیں